الزام خود پر یا کسی او رپر
اب میرا گھر شوہر کا گھر ہے۔ یہاں میں بے حد پریشان ہوں جبکہ میکے کے سکون کا ذکر کروں تو بے جانہ ہوگا۔ مگر اب یہاں رہنا میری مجبوری ہے گھر والے بہت تیز ہیں‘ لڑائی ہوتی ہے تومیں ڈر جاتی ہوں اور ہر بات کا الزام خود پر لے لیتی ہوں بعد میں بھی خود کو ملامت کرتی ہوں کہ میں کس قدر خراب ہوں۔ شوہر کو مجھ سے بھی ہمدردی ہے۔ وہ کہتے ہیں خود کو الزام دینے کے بجائے دوسروں کو الزام دیا کرو اور ڈرا نہ کرو‘ بزدلی میں تو تم وہ قصور بھی مان لیتی ہو جو تمہارے نہیں ہوتے۔ شوہر کی باتوں سے حوصلہ ہوتا ہے تب ہی اب تک سسرال میں گزارا ہورہ ہے لیکن میں اپنے ڈر اور خوف کا کیا کروں جو مجھے دوسروں سے محسوس ہوتا ہے۔ (م۔ فیصل آباد)
مشورہ: خود کو الزام دینا اور دوسروں کو الزام دینا دونوں ہی غلط ہیں‘ دوسرں کو برا کہنے یا الزام دینے سے نفرت‘ تشدد‘ مایوسی اور اختلاف بڑھتا ہے جبکہ خود کو ملامت کرنے یا الزام دینے سے بھی اپنی شخصیت پر ناگوار تاثر قائم ہوتا ہے جو لوگ آپ پر الزام لگاتے ہیں ۔ ڈراتے ہیں‘ ان کے بارے میں جان لیں کہ وہ اچھے نہیں ہیں اور ان سے ملاقات ایک حد تک ہی رکھنی ہے نہ زیادہ ملنا ہے نہ لڑنا ہے لیکن چونکہ وہ شوہر کے قریبی عزیز ہیں اس لیے ان سے تعلق بھی رکھنا ضروری ہے۔ بہت عقلمندی سے کام لے کر ملیں اور حوصلہ رکھیں ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے جہاں تک ممکن ہو اہل خانہ کے ساتھ احسان‘ ہمدردی‘ رواداری اور نیک سلوک کرتی رہیں۔ ایک نہ ایک دن گھر میں عزیزوں میں آپ کی عزت اور قدر ضرور ہوگی۔ ورنہ نیکی کا صلہ تو کسی نہ کسی صورت میں مل ہی جاتا ہے۔
امتحان کا خوف یا دماغی دورہ
میری دوست نے گزشتہ سال فرسٹ ایئر کے پیپرز دئیے اور بہترین نمبر حاصل کیے اس سال اس نے پہلا پیپر تو ٹھیک دیدیا مگر دوسرے پیپر کے وقت اچانک اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ اس وقت اس کا جسم کانپنے لگا۔ جب اسے ہوش آیا تو پیپر کا وقت ختم ہوچکا تھا پھر وہ روتی ہوئی گھر آئی اور پورا دن روتی رہی۔ اس کے گھر والوں نے اسے بہت سمجھایا میں نے بھی کہا کہ دوسرے پیپر کی تیاری کرلو اور وہ پھر پیپر دینے گئی اور پھر بے ہوش ہوگئی جسم بری طرح کپکپانے لگا اور وہ مایوس گھر لوٹی۔ اس کے بعد اس نے کوئی پیپر نہیں دیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ آئندہ امتحان نہ دے گی یعنی پڑھنا چھوڑ دیا۔ اب وہ نامید اور مایوس ہے گھر والے سمجھاتے ہیں اس پر اثر نہیں ہوتا۔ (نادیہ نقوی‘ سیالکوٹ)
مشورہ: سب سے پہلے بے ہوشی کی وجہ معلوم ہونی چاہے۔ تحریر کردہ علامات سے ظاہر ہورہا ہے کہ لڑکی کو دورہ پڑا تھا۔ بے ہوش ہونا اور جسم کانپنا تو دوروں کی ہی علامات ہیں مگر اس کے ساتھ وہ علامات بھی ہیں جو تفصیلات جانے بغیر معلوم نہیں کی جاسکتیں۔ خاص طور پر امتحانات کے دوران بے ہوشی اور پیپر کے وقت مستقل بے ہوشی کے ساتھ جسم کا کانپنا کس وجہ سے ہے۔ امتحان کا خوف ہے یا ذہنی مرض اس کی تشخیص ہونی ضروری ہے تب ہی صحیح صورتحال سامنے آسکتی ہے مگر دوروں کی بیماری ہوتی تو وہ بھی ٹھیک ہوسکتی ہے اور اگر صرف خوف ہوا تو وہ بھی دور ہوسکتا ہے اور آپ کی دوست نارمل طریقے سے امتحان دینے کے قابل ہوسکتی ہے۔
نامکمل زندگی
میں ایک نامکمل زندگی بسر کررہا ہوں۔ پہلی شادی ناکام ہوگئی۔ دوسری بھی ختم ہونے کو ہے۔ پہلے والدین کی پسند پر شادی کی تھی اور پھر دوستوں کے کہنے سے کرلی۔ میں بہت حساس انسان ہوں۔ آمدنی کم ہے اس لیے ملازمت پیشہ لڑکی سے شادی کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ پہلے ایک ایئر ہوسٹس سے شادی کی تھی اس کی عمر مجھ سے پانچ سال بڑی تھی مگر یہ ہماری دور کی رشتے دار بھی تھی۔ بہرحال اختتام علیحدگی پر ہوا۔ اس نے ایک اور شخص سے شادی کی اور کامیاب زندگی گزار رہی ہے۔ دوسری شادی ایک لیکچرار سے کی۔ وہ ہر وقت مجھے نصیحتیں کرتی رہتی ہے دراصل میں کنجوس نہیں ہوں‘ فضول خرچی کرتا رہتا ہوں۔ اپنی جیب میں رقم ختم ہوجائے تو بیوی سے لے لیتا ہوں۔ گھر میں تو جو پیسہ آتا ہے وہ سب کا ہوتا ہے اگر کوئی اختلاف کرے تو غصہ آجاتا ہے اس بات پر دوسری بیوی بھی مزاج خراب کرلیتی ہے۔ والدین کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا ہوں۔ کبھی پریشانی برداشت نہیں کی۔ میں غیرمعمولی مگر کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ اب گھریلو جھگڑے مجھے ذہنی مریض بنارہے ہیں۔ (شکیل عارف‘ اسلام آباد)
مشورہ: لاڈلے اور اکلوتے بچے کا مزاج ذرا مختلف ہوتا ہے گھر والے بچپن سے اس کی ہر بات مانتے آرہے ہیں ایسا بچہ بڑا ہوتا ہے تو دیگر لوگ اس کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جس کا وہ بچپن سے عادی رہا ہوتا ہے ایسے بچے خود کو حساس سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ صرف اپنے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ سب اکلوتے بچے بڑے ہوکر ناکام زندگی نہیں گزارتے مگر بعض کو تعلقات میں مطابقت پیدا کرنے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔ آپ نے اپنے جو حالات بیان کیے ان کی روشنی میں غلطی پر آپ ہی ہوتے ہیں۔ اگر آمدنی زیادہ نہیں تو اخراجات پر قابو رکھنا ضروری ہے اور بیوی کی آمدنی بغیر اجازت خرچ کرنا مناسب نہیں۔ شادی کے بعد زندگی غیرمعمولی نہیں بلکہ معمول کے مطابق گزاری جانی چاہیے۔ ملازمت کرنے والی خاتون کے شوہر کو اپنی بیوی کا کچھ زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے تب ہی زندگی اچھی گزرتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 132
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں